دوستوں، جب ہم آمیزون جنگل کا نام سنتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے ذہن میں یہاں رہنے والے مختلف خوفناک جانور آتے ہیں، جیسے کہ اناکونڈا، پائتھن اور کوبرا۔ یہاں تک کہ لوگ مانتے ہیں کہ اس آمیزون جنگل میں آج بھی ڈایناسور رہتے ہیں، اور یہ بات ایک حد تک بالکل درست بھی ہے کیونکہ آمیزون جنگل اتنا گھنا ہے کہ ابھی تک اس کا صرف 25 فیصد حصہ ہی دیکھا جا سکا ہے، اور باقی 75 فیصد میں جو کچھ بھی ہے، وہ جنگل ہم انسانوں سے چھپا رہا ہے۔ ابھی تک سائنسدان بھی نہیں جان پائے ہیں۔ اس جنگل کی وسعت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہر تیسری دن یہاں جب جنگل میں کوئی نئی چیز نکل کر سامنے آتی ہے۔
تو آج ہم آپ کو اس مضمون میں ایمیزون کے جنگل کے بارے میں کچھ خاص باتیں بتائیں گے، ساتھ ہی یہ بھی بتائیں گے کہ اس جنگل کی تشکیل کیسے ہوئی، اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ خوبصورت اور نرالے قسم کے جانور اور نباتات ایمیزون کے جنگلوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس جنگل میں آ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی بالکل مختلف دنیا میں آ گئے ہوں۔ آج کل زمین کا سب سے گھنا جنگل ایمیزون ہی ہے۔ یہاں پائے جانے والے اناکونڈا دوسرے ممالک کی بہ نسبت کافی بڑے ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ، اس جنگل میں قدیم زمانے کے خوفناک سانپ دیکھے جانے کا بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کیونکہ اس جنگل کا ماحول بالکل ویسا ہی ہے جیسا لاکھوں سال پہلے زمین کا ہوا کرتا تھا۔ اس جنگل میں بلٹ اینٹ جیسی چیڑیاں اور کئی منفرد جانور موجود ہیں جو صرف ایمیزون جنگل میں ہی ملتے ہیں، جیسا کہ ہم نے آپ کو پہلے ہی بتایا تھا۔ ابھی تک ایمیزون جنگل کا آدھے سے بھی کم حصہ دیکھا جا سکا ہے اور باقی کا 75 فیصد ایسا ہے جہاں آج تک انسان نہیں پہنچ پایا کیونکہ یہ جنگل بہت ہی گھنا ہے، اس کے اندر جانا کسی خطرے سے کم نہیں ہے، اور اتنے اندر تک ٹیکنالوجی کا سامان لے جانا اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ جیسے آپ نے سنا، اس کا ماحول لاکھوں سال پہلے کی زمین جیسا ہے، تو سائنسدان بھی اس جنگل کے ساتھ زیادہ چھیڑ چھاڑ کرکے اسے تباہ نہیں کرنا چاہتے۔ ایمیزون جنگل کے اندر جانوروں کے علاوہ کئی طرح کے قبائل بھی رہتے ہیں، اور اس جنگل میں کئی ایسی نسلیں بھی ہیں جن کے بارے میں ہمیں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہے۔ اور اگر اس تیزی سے بڑھتے ہوئے جدید ٹیکنالوجیکل ڈیولپمنٹ کے اگر یہ ایمیزون جنگل ختم ہو گیا تو دنیا کے کئی جانور ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے۔
ایمیزون جنگل کے بارے میں روز نئے اور دلچسپ حقائق سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہاں اکثر مختلف قسم کے تجربات اور تحقیقی کام ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً، کچھ سال پہلے یعنی 2017 میں لیڈز یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں یہ پایا گیا کہ ایمیزون جنگل جتنا کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے، اتنا کہیں اور نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے یہاں کاربن ایمیشن بہت کم ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کا ماحول بہت اچھا ہے۔ سائنسدان کارلوس نوبل اپنی تحقیق میں بتاتے ہیں کہ جس طرح سے ایمیزون جنگل کو آج کل بہت تیزی سے کاٹا جا رہا ہے جو زمین کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ جنگل پوری دنیا کو 20 فیصد سے زیادہ صاف آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ ایمیزون جنگل اتنا وسیع ہے کہ یہ نو ممالک کی حدوں کو چھوتا ہے جن میں سے 60 فیصد برازیل، 13 فیصد پیرو، 10 فیصد کولمبیا، اور باقی حصہ گویا ایکواڈور، وینیزویلا، کولمبیا، سورینا اور فرنچ گویانا تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ کو سن کر یقیناً حیرت ہوگی کہ جتنے جانور اس پوری دنیا میں دیکھے جاتے ہیں، اُن میں سے ایک تہائی جانور اکیلے ایمیزون جنگل میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس جنگل کے درخت ان کی تعداد تقریباً چار ارب بتائی جاتی ہے جس میں 16000 سے زیادہ ان کی اقسام ہیں۔ دوستوں، ایمیزون جنگل کے کیڑوں کی بھی بہت زیادہ بات کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں جتنے طرح کے کیڑے اور جانور ملتے ہیں ان میں سے صرف چند فیصد کے بارے میں سائنسدان ابھی تک معلوم کر پائے ہیں۔ یہاں ملنے والی بلیٹ چیٹیاں عام چیٹیاں نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے اگر یہ کسی انسان کو ڈنک ماریں تو بندوق کی گولی لگنے جیسا محسوس ہوتا ہے۔ دکھنے میں یہ معمولی چیٹینوں کی طرح چھوٹی ہی ہیں، لیکن ان کے ڈنک میں بہت ہی خطرناک زہر پائے جاتے ہیں۔ یہاں چیٹیوں کے بعد مکڑیوں کی بھی بہت زیادہ بات ہوتی ہے کیونکہ یہاں 3000 سے زیادہ مکڑیوں کی اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے زیادہ تر خطرناک اور زہریلی ہوتی ہیں۔ اس جنگل کی رینٹلا مکڑی کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں یہ مکڑی اپنے بالوں کو خطرناک ہتھیاروں کی طرح استعمال کرتی ہے۔ اگر غلطی سے یہ کسی انسان کی آنکھ میں چلی جائے تو شدید زخمی کر دیتی ہے۔ اب اتنے حیرت انگیز اور چھوٹے جانور بس یہی دیکھنے کو ملتے ہیں تو یہ تو ہو گئی اس جنگل کے بارے میں کچھ خاص باتیں،
یہ جنگل بنا کیسے؟
لیکن ان سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ جنگل کیسے بنا، یہ جان کر آپ واقعی حیران رہ جائیں گے کیونکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایمیزون جنگل جس انداز میں بنا ہے اس نے تقریباً آدھی زمین کو تباہ کر دیا ہے۔ حال ہی میں کچھ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ڈایناسور جیسے بڑے جانوروں کو مارنے والا ایک ایسٹروئڈ ایک نئی قسم کے ٹراپیکل جنگل کے بننے کا ذمہ دار تھا۔ یہ ٹراپیکل جنگل ایک ایسٹروئڈ کی وجہ سے بنا جو تقریباً 65 ملین سال پہلے زمین سے ٹکرایا تھا، اور اس کے بعد کریٹیشس ماس ایکسٹینکشن ہوا جس نے زمین کا پورا منظر ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس دوران زمین پر حکمرانی کرنے والے تقریباً 25 کلو وزن سے زیادہ کے تقریباً 75 فیصد جاندار کی اقسام مکمل طور پر ختم ہو گئیں۔ یہ ماس ایکسٹِنکشن بنیادی طور پر دو وجوہات کی بنا پر ہوا جس نے ڈایناسور جیسے خوفناک جانوروں کا نام و نشان مٹا دیا۔ سب سے پہلے تقریباً 65 ملین سال پہلے ایک 10 کیلومیٹر سائز کا بہت بڑا ایسٹیرائیڈ ہماری زمین سے ٹکرا گیا۔ اس ایسٹیرائیڈ کے زمین سے ٹکرانے کے فوراً بعد کئی کلو میٹر دور تک آگ کے گولے پھیل گئے۔ اس آگ کے گولے نے جو بھی بڑے جانور راستے میں آئے، ان کی تمام اقسام کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔ اس ایسٹیرائیڈ کی ٹکر میں سمندر میں کئی کلومیٹر بلند خطرناک لہریں اٹھیں جنہوں نے ہر طرف تباہی مچا دی۔ اس ٹکراؤ کی وجہ سے نکلنے والی دھول چند ہی لمحوں میں پورے آسمان میں پھیل گئی، جس کی بدولت ہماری زمین کا ماحول کافی عرصے تک دھول اور گیس سے ڈھکا رہا۔ اس کی وجہ سے سورج کی روشنی کی کرنیں زمین کی سطح تک نہیں پہنچ سکیں، جس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت کئی ڈگری سینٹی گریڈ تک گر گیا۔ اس بڑے تباہ کن واقعے کی وجہ سے جانور اور درخت بہت بری طرح تباہ ہو گئے۔ اب چند مہینے گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ زمین کے ماحول سے دھول اور گیس کے بادل صاف ہونے لگے۔ اور روشنی کی کرنیں ایک بار پھر زمین پر پہنچنے لگیں۔ اس ماس ایکسٹینشن کے بعد چوہے جیسے لگنے والے میملز اور دوسرے جانداروں کی اقسام وجود میں آئیں جنہوں نے لاکھوں سال کی ارتقاء کے بعد میمل سے بندر اور بندروں سے انسان کی شکل اختیار کی۔ یہ ایسٹیرائڈ یعنی شہاب ثاقب ہماری زندگی کے لیے بہت ضروری تھا۔ اگر یہ شہاب ثاقب زمین سے ٹکراتا نہ تو ڈایناسور کبھی ختم نہ ہوتے اور ہمارا وجود کبھی سامنے نہ آتا۔ اور یہی وہ ایسٹیرائڈ تھا جس کی وجہ سے ایمیزون جنگل اتنا وہ جگہ جہاں بہت زیادہ گھنے درخت ہیں اور بے شمار جانور رہتے ہیں، اصل میں آج جہاں امیزون جنگل ہے وہاں ڈایناسور کے زمانے میں بہت لمبے درخت ہوا کرتے تھے۔ لیکن ڈایناسور کی اقسام میں کئی گھاس خور بھی شامل تھے جو ان درختوں کو بڑھنے ہی نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ انہیں بڑھنے سے پہلے ہی کھا جاتے تھے۔ لیکن جب ایک دھماکہ خیز شٹل زمین پر گرا تو ڈایناسور مکمل طور پر ختم ہو گئے۔ اس کے بعد ان درختوں کو کھانے والا کوئی نہ رہا۔ اور جو یہ شٹل تھا وہ بالکل امیزون جنگل کے اوپر گرا تھا، جس کی وجہ سے اُس وقت یہ جنگل مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا، یہاں کوئی بھی جانور زندہ نہیں بچا تھا۔ اور ساتھ ہی یہ جگہ مکمل طور پر ریڈی ایشن سے بھر گئی تھی۔ سورج کی کرنوں کا درجہ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ اس نے تمام سبز و شاداب درختوں کو جلا کے خاک کر دیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کی صورتحال بہتر ہوئی اور یہاں زندگی دوبارہ ابھرنے لگی۔ درخت اور پودے دوبارہ اگنے لگے، مگر اس بار درختوں کو کھانے والے کوئی جانور موجود نہیں تھے، جس کی وجہ سے درخت اور پودے بہت تیزی سے بڑھنے لگے۔ یہاں کہا جا سکتا ہے کہ وہی ریڈی ایشن جس نے اس جنگل کو تباہ کر دیا تھا، اسی نے ان پودوں کو مزید اگنے میں مدد دی،
کیونکہ اس اُلکہ پِنڈ کے گرنے کی وجہ سے یہاں کی زمین بہت نرم اور زرخیز ہو گئی تھی۔ یہ جنگل باقی تمام جنگلات سے بہت مختلف لگتا ہے۔ اگر اسے اوپر سے دیکھا جائے تو دنیا کے باقی جنگلات اور ایمیزون جنگل کے درمیان فرق صاف نظر آتا ہے۔ ایمیزون رین فاریسٹ میں بہت سی ایسی عجیب و غریب پودے اور درخت پائے جاتے ہیں جو پوری دنیا میں کہیں اور نہیں ملتے۔ اس کے علاوہ، ایمیزون جنگل کی گہرائی میں کیا ہے، آج تک کوئی نہیں جانتا کیونکہ کسی نے اسے مکمل طور پر نہیں دیکھا۔
ممکن ہے کہ کوئی گرا ہوا شهاب ثاقب اس جنگل کے اندر ایک الگ ہی دنیا بنا چکا ہو۔ یہاں کے درخت اور پودے کسی بھی دوسرے جنگل سے کہیں زیادہ گھنے ہیں، اور یہ بھی کہیں نا کہیں اس شهاب ثاقب سے ہی جڑے ہیں۔ آپ کو شاید پتہ ہوگا کہ جب بھی کوئی آتش فشاں پھٹتا ہے تو اس کے ارد گرد کی ساری جگہ لاوے کی وجہ سے تباہ ہو جاتی ہے، لیکن یہی لاوا کچھ سالوں بعد نئی زندگی کی شروعات کرتا ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی چیز کا خاتمہ کسی کے لیے آغاز ہوتا ہے۔