اللہ تبارک و تعالی نے اس روئے زمین پر اپنے بندوں کے لیے بیش بہا نعمتوں کو پیدا کیا ان نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت وقت بھی ہے، عربی کا مشہور مقولہ ہے (الوقت اثمن من الذهب ) وقت سونا سے زیادہ قیمتی ہے۔
وقت ایک ایسی عظیم شے ہے کہ اگر اسے کارآمد بنایا جائے تو وہ انسان کو فلاح و بہبودی کی بلند چوٹیوں پر پہنچا دیتا ہے اور اس کو زندہ جاوید بنا دیتا ہے اگر ہم وقت کی قدر نہیں کریں گے تو وقت ہمیں اپنا غلام بنا لے گا عربی کے اس مقولہ کے تحت (الوقت كالسيف ان لم تقطعه لقطعك) وقت دو دھاری تلوار ہے اگر آپ نے اسے نہیں کاٹا تو وہ آپ کو کاٹ ڈالے گا ، ہمیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا، آج دور حاضر میں وقت کا سب سے بڑا قاتل موبائل ہے آج موبائل اور انٹرنیٹ ہمیں اپنے اشاروں پر نچا رہا ہے موبائلوں پر بیٹھے بیٹھے گھنٹوں بیت جاتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے، کہ ہمارا قیمتی سرمایہ وقت کہاں اور کیسے صرف ہو گیا خصوصا طالبعلمانہ دور اس زہر قاتل سے بڑا متاثر ہورہا ہے، اس لیے کہ وقت طالب علم کے لیے سب سے بڑی دولت اور سب سے قیمتی سرمایہ ہے موبائل اور انٹرنیٹ سے وقت کا ایسا خاتمہ ہوتا ہے، جو نا قابل بیان ہے، اہل یورپ کی تمام تر ترقیوں کا راز وقت میں مضمر ہے اگر آپ تاریخ کے اوراق کھولیں تو پتہ چلے گا کہ یورپی معاشرہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود وقت کا قدرداں اور غنیمت داں ہے، یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں یورپی معاشرہ کے علم وفن اور سائنس ٹیکنالوجی کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ جن قوموں نے بھی وقت کی قدر و منزلت کو جانا اور وقت کی قدر کیا تو انہوں نے صحرا اور بیابانوں کو گلشنوں ، سرسبز و شاداب اور زرخیز باغوں میں تبدیل کر دیا، پہاڑوں کے جگر کو پاش پاش کر دیا فضاؤں کو اپنی مٹھی میں کر لیا جب دوسری قومیں تمام خامیوں اور مشغولیتوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے بحرو بر کو اپنے قبضہ میں کر سکتی ہیں تو ہم بھی اگر روزانہ ۱۰ صفحات کا مطالعہ کر لیں تو سال بھر میں 10 ہزار صفحات کا اپنی دید سے معائنہ کر سکتے ہیں، دور تعلیم وہ سایہ دار درخت ہے جسے اگر وقت کی قدر کے چشموں سے سینچا جائے تو وہ درخت خوب ہرا بھرا اور انسانی راحت کے لیے نفع بخش ہو جاتا ہے لیکن اگر اس درخت کو ضیاع وقت کا گھن لگ جائے تو وہ درخت اس طرح اپنی سرسبزی اور شادابی متحول ہو جاتا ہے جیسے یوں ہی کوئی درخت بغیر برگ و بار کے کھڑا ہو جس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے اسلاف و اکابر وقت کے سلسلے میں بڑے محتاط تھے ضیاع وقت سے وہ بہت مغموم ہوتے تھے، آئیے ہم اپنے اسلاف کے احوال زندگی سے وقت کی قدر دانی کا معائنہ کریں۔ حضرت خلیل نحوی جو نحو اور لغت کے امام اور علم عروض کے موجد ہیں انہیں رب کا ئنات نے یہ احساس عطا فرمایا تھا کہ وہ کہتے تھے ( اثقل الساعات علي ساعة اكل فيها ) وہ ساعت مجھ پر بڑی گراں گزرتی ہے جن ساعتوں میں کھانا کھاتا ہوں۔ حضرت معروف کرخی کی مجلس میں چند لوگ تشریف لائے اور حضرت سے لوگوں نے گفتگو کی جب مجلس طویل ہوگئی اور لوگ مجلس سے نہ اٹھے تو حضرت معروف کرخی نے یہ جملہ ارشاد فر ما یا ان ( ملك الشمس لا يفتر عن سوقها فمتى تريدون القيام ) نظام شمسی چلانے والا فرشتہ تھکا نہیں اس کی گردش جاری ہے اور وقت ہمارے پاس سے گزر رہا ہے آپ لوگ کب اٹھنا چاہتے ہیں حضرت معروف کرخی کا اس جملہ سے وقت ہی کی جانب اشارہ ہے۔ آپ ماضی بعید کو چھوڑیے اور ماضی قریب میں ہی دیکھ لیجئے مولانا اشرف علی تھانوی کو جنہوں نے اتنی کم مدت میں ایسے ایس محیر العقول کارنامے انجام دیئے ہیں جسے دیکھ کر پوری دنیا انگشت بدنداں ہے۔ اللہ تعالی ہمیں بھی اپنے علماء سلف کی طرح وقت کی قدردانی نصیب فرمائیں۔
یہ معلومات اہم بات ڈاٹ کام (Ahambaat.Com) کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے۔