نماز عید قرباں کے چند اہم مسائل

تکبیرات تشریق کے چند اہم مسائل:

مسئلہ 1: تکبیر تشریق ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے ! بعض لوگ تین دفعہ پڑھنے کو ضروری سمجھتے ہیں جو غلط ہے۔

مسئلہ 2: تکبیرات تشریق شہری ، دیہاتی ، مقیم ، مسافر، مرد، عورت سب پر واجب ہیں۔

مسئلہ :3: تکبیرات تشریق قدرے بلند آواز سے پڑھنی چاہیے بعض لوگ پڑھتے ہی نہیں یا آہستہ پڑھ لیتے ہیں۔ ضرور پڑھنی چاہیے اور مناسب بلند آواز میں پڑھنی چاہیے۔

مسئلہ 4: تکبیرات تشریق نو ذوالحج کی نماز فجر سے لے کر تیرہ ذوالحج کی عصر تک پڑھنا واجب ہے خواہ نماز باجماعت پڑھی جائے یا بغیر جماعت کے پڑھی جائے۔

مسئلہ 5: اگر کسی کی باجماعت نماز رہ جائے یا جماعت سے کچھ رکعات رہ جائیں تو ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ نماز مکمل کرنے کے بعد بلند آواز سے تکبیرات کہیں۔ عموماً لوگ اس میں جھجک کا مظاہرہ کرتے ہیں اور تکبیرات کو آہستہ پڑھتے ہیں یہ کوئی جھجک والی بات نہیں۔

مسئلہ 6: اگر کوئی تکبیرات کہنا بھول گیا تو اگر نماز کے منافی کوئی کام نہیں کیا تو یاد آنے پر تکبیرات کہہ لینی چاہئیں اور اگر نماز کے منافی کوئی کام کر لیا مثلاً وضو توڑ دیا، باتیں کر لیں ، مسجد سے نکل گیا، یا کسی کھلے میدان میں نماز پڑھی اور صفوں سے باہر نکل آیا تو تکبیرات فوت ہو گئیں، اب کہنے سے واجب ادا نہیں ہو گا، اس پر استغفار ضروری ہے۔

مسئلہ 7 ایام تشریق کی کوئی فوت شدہ نماز اسی سال ایام تشریق میں قضاء کرے تو اس کے بعد بھی تکبیرات تشریق کہنا واجب ہے۔

مسئلہ 8: اگر ایام تشریق سے پہلے کی کوئی نماز ایام تشریق میں قضا کرے یا ایام تشریق کی کوئی فوت شدہ نماز ایام تشریق کے بعد قضا کرے تو تکبیرات نہ کہے۔

مسئلہ 9 نماز عید کے بعد بھی تکبیر تشریق کہنی چاہیے۔

مسئلہ 10: نماز عید کے لیے عید گاہ یا جہاں نماز عید ادا کرنی ہے اس کی طرف جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیر کہنا مستحب ہے۔


نماز عید کا طریقہ :

پہلی رکعت میں ثناء پڑھنے کے بعد تین زائد تکبیرات اس طرح کہیں کہ ہاتھ اٹھائیں پھر چھوڑ دیں، پھر ہاتھ اٹھائیں پھر چھوڑ دیں، پھر ہاتھ اٹھائیں اور سورت باندھ لیں۔ امام صاحب اعوذ باللہ ، بسم اللہ ، فاتحہ اور اس کے بعد والی پڑھے گا۔ مقتدی خاموش رہیں۔ اس کے بعد رکوع، قومہ ، دو سجدے کر کے قیام کریں۔ دوسری رکعت میں امام صاحب بسم اللہ ، فاتحہ اور اس کے بعد والی سورت پڑھے گا۔ مقتدی خاموش رہیں گے ۔ قرآت کے بعد تین زائد تکبیریں اس طرح کہیں کہ ہاتھ اٹھائیں پھر چھوڑ دیں، پھر ہاتھ اٹھائیں پھر چھوڑ دیں، پھر ہاتھ اٹھائیں پھر چھوڑ دیں اور پھر رکوع کی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے جائیں۔ پھر قومہ، دو سجدے کر کے تشہد بیٹھیں اور آخر میں سلام پھر دیں گے۔

نماز عید میں اذان اور اقامت نہیں ہوتی۔ دور کعت نماز پہلے ادا کی جاتی ہے اور خطبہ بعد میں دیا جاتا ہے۔ اس لیے مذکورہ طریقہ کے مطابق دور کعت نماز عید ادا کر لی جائے اور اس کے بعد عید کا خطبہ پڑھا جائے۔ خطبہ کے بعد ملک و ملت اور اس کو وبا کے خاتمہ کے لیے دعا کا اہتمام کیا جائے


نماز عید کے بعد مصافحہ و معانقہ:

عید کی نماز کے بعد مصافحہ و معانقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر محض عید کی خوشی اور مسرت کی وجہ سے آپس میں معانقہ و مصافحہ کیا جائے اور اس کو عید کی سنت نہ سمجھا جائے بلکہ محض محبت اور تعلق کا اظہار مقصود ہو تو درست ہے۔ ایسی صورت میں مصافحہ و معانقہ مباح اور جائز ہو گا۔ البتہ مصافحہ و معانقہ کو کسی دن مثلاً جمعہ یا عیدین کے ساتھ خاص کرنا اور اسے بطور خاص اس دن کی سنت سمجھ کر کرنا صحیح نہیں۔


عید کی مبارک باد دینا:

عید کے اس موقع پر ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دینا مستحب عمل ہے۔ عید کی مبارک باد دیتے ہوئے ایک دوسرے کو تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَ منك “ اللہ تمہارے اور ہمارے نیک اعمال قبول فرمائے) کے الفاظ کہنے چاہییں اور انہی الفاظ کی عادت ڈالنی چاہیے کیونکہ یہ الفاظ حدیث مبارک سے ثابت ہیں۔


نماز عید سے پہلے قربانی جائز نہیں:

جہاں عید کی نماز ہوتی ہو وہاں قربانی کا وقت نماز عید کے بعد شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ شہر یا قصبے میں ایک جگہ بھی نماز عید ہو جائے تو قربانی کی جاسکتی ہے خواہ قربانی کرنے والے نے خود نمازِ عید نہ پڑھی ہو۔ اگر کسی جگہ پر حکومتی پابندی کی وجہ بڑے اجتماعات نہ ہوئے ہوں اور مساجد میں بھی نمازِ عید نہ ہو رہی ہو تو مذکورہ طریقے کے مطابق نماز عید پڑھ کر قربانی کر لی جائے۔ نماز عید کا وقت سورج نکلنے کے تقریباً پندرہ منٹ بعد شروع ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ جہاں عید کی نماز ہوتی ہو وہاں نمازِ عید سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں۔ اگر کسی نے نمازِ عید سے پہلے جانور ذبح کر لیا تو یہ گوشت کا جانور ہوا، قربانی نہیں ہو گی۔


جہاں نماز عید نہ ہوتی ہو وہاں قربانی کا حکم:

اگر کوئی ایسی بستی ہے جہاں جمعہ و عیدین کی نماز نہیں ہوتی تو وہاں پر 10 ذو الحجہ کی صبح صادق کے بعد قربانی کی جاسکتی ہے اگر چہ شہر میں ابھی عید کی نماز ادانہ ہوئی ہو۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ دیہات اور بستی میں سورج نکلنے کے بعد قربانی کی جائے۔


قربانی کا وقت:

قربانی کا وقت دسویں تاریخ سے لے کر بارھویں تاریخ کی شام تک ہے۔ بارھویں تاریخ کا سورج غروب ہو جانے کے بعد قربانی درست نہیں۔ دس اور گیارہ کی درمیانی رات، اسی طرح گیارہ اور بارہ کی درمیانی رات میں بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔

اللہ رب العزت ہمیں عید کی خوشیاں نصیب فرمائے اور ہماری قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔

آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

جدید تر اس سے پرانی