سائنس کے بنیاد رکھنے والے 5 مسلم سائنسدان | Muslim scientists

سائنس کے بنیاد رکھنے والے 5 مسلم سائنسدان | Muslim scientists

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ دنیا کی ترقی میں مسلمانوں کا کیا کردار رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب انسانی تہذیب علم و فن کی راہ پر گامزن ہوئی تو مسلمانوں نے اپنے علم، ایجادات اور تحقیق سے دنیا کو وہ تحفے دیے جن کے بغیر آج کی جدید سائنس کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ آئیے، تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے مسلم سائنسدان ہیں جن کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

مسلمانوں کا علمی ورثہ

اکثر مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے دنیا کو کچھ نہیں دیا، لیکن جب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو ہر شعبے میں مسلمان ہی مسلمان نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں نے اس دنیا کو ایسے ایسے ایجادات دی ہیں جو آج بھی ہم اور آپ استعمال کرتے ہیں۔ اگر مسلم سائنسدان پیدا نہ ہوتے تو سائنس کا کوئی نام و نشان نہ ہوتا۔ لیکن وہ کہاوت ہے نا کہ جو حکومت میں ہوتا ہے، وہی اپنی مرضی سے تاریخ لکھتا ہے۔

یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام سے نفرت کی وجہ سے مسلم سائنسدانوں کی تاریخ کو خوب چھپایا، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ آج میں آپ کو پانچ ایسے مسلم سائنسدانوں کے بارے میں بتاؤں گا جنہیں آج دنیا جھک کر سلام کرتی ہے۔

1. محمد الغفیقی - موتیا بند کا علاج کرنے والا ہیرو

دوستو! آپ نے موتیا بند بیماری کے بارے میں تو ضرور سنا ہوگا۔ اس میں آنکھ کے آگے ایک سفید پردہ سا آ جاتا ہے جس کی وجہ سے دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج سے تقریباً نو سو سال پہلے ہی ایک مسلم سائنسدان اور ڈاکٹر محمد الغفیقی نے اس بیماری کا صحیح علاج کر دیا تھا۔ الغفیقی نے علاج کے لیے ایک ایسی سوئی بنائی جسے آنکھ کے لینز میں ڈال کر اس سفید پردے کو نکال سکتے تھے۔ سوچیں! نو سو سال پہلے آنکھ میں سوئی ڈال کر بیماری کا علاج کر دینا کتنی حیرت کی بات تھی۔ محمد الغفیقی آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر تھے اور میڈیکل میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔ طب کے شعبے میں لکھی گئی ان کی کتابوں کو آج بھی سائنسدان استعمال کرتے ہیں۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے 1965 میں اسپین کی حکومت نے ان کی 800ویں برسی پر ان کا مجسمہ لگایا۔

2. ناصر الدین طوسی - ٹرگنومیٹری کا بانی

دوستو! آپ نے دسویں کلاس میں ریاضی میں ٹرگنومیٹری کے بارے میں ضرور پڑھا ہوگا، جس میں مثلث کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ اگر مسلم سائنسدان الطوسی نہ ہوتے تو آج کی ریاضی ادھوری ہوتی۔ الطوسی کو ٹرگنومیٹری کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ ایک فارسی عالم تھے جو فلسفی، طبیب، سائنسدان اور مذہبی عالم بھی تھے۔ تیرھویں صدی میں الطوسی نے سائنس کے شعبے میں 150 سے زیادہ ایجادات کیں، جن میں سب سے مشہور "طوسی کپل" ہے۔ یہ ایک ایسا آلہ تھا جس کی مدد سے سیاروں کی حرکت، سمت اور فاصلہ معلوم کیا جا سکتا تھا۔ سوچیں! اگر یہ سائنسدان نہ ہوتے تو آج خلا میں سیاروں کا مطالعہ کرنا کتنا مشکل ہوتا۔ اور کیا آپ کو معلوم ہے کہ چاند کے ایک حصے کا نام انہی کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کا نام ہے 102692C۔

3. ابن خلدون - سوشیالوجی کا امام

انہوں نے تاریخ اور سماجی قوانین پر بہت سی کتابیں لکھیں۔ ان میں سب سے مشہور کتاب "المقدمہ" ہے، جسے انگریزی میں "Introduction" کہا جاتا ہے۔ اس میں سوشیالوجی کے کئی اصول ہیں جو اس دور سے لے کر آج تک بہترین سمجھے جاتے ہیں۔ اس کتاب کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ نے 2015 میں اسے اپنی پسندیدہ کتاب کے طور پر پڑھا۔ ابن خلدون عرب کے رہنے والے تھے اور ادب، مذہب، علم نجوم اور معیشت سمیت کئی شعبوں میں ماہر تھے۔ ان کی کتابیں آج بھی دنیا کے کئی ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔

4. محمد ابن ابراہیم الفزاری - اسٹرولاب کا موجد

دوستو! یہ وہ سائنسدان تھے جنہوں نے فلسفہ، ریاضی اور فلکیات میں مہارت حاصل کی تھی۔

انہوں نے خلا پر خوب تحقیق کی اور ایک آلہ بنایا جسے "اسٹرولاب" کہا جاتا ہے۔ اس کی مدد سے سمت کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا تھا اور ستاروں کی پوزیشن معلوم کی جا سکتی تھی کہ کون سا ستارہ کب اور کہاں ہوگا۔ اس آلے کی خاص بات یہ تھی کہ اس سے کعبہ کی سمت بھی معلوم کی جا سکتی تھی۔ اسٹرولاب اس زمانے کا کمپیوٹر مانا جاتا تھا اور اسی کی بنیاد پر آج کا کمپاس ایجاد ہوا۔ دوستو! تقریباً ہزار سال پہلے ہی انہوں نے گھڑی ایجاد کی تھی، جو آج کی گھڑیوں سے کافی بڑی تھی اور اسے "ایلیفینٹ کلاک" کہا جاتا تھا۔ اس سے رات کے وقت کا پتہ لگایا جا سکتا تھا کہ کتنی رات گزر چکی ہے اور کتنی باقی ہے۔ دن کا وقت تو سورج سے معلوم ہو جاتا ہے، لیکن رات کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ مگر ہزار سال پہلے اس مسلم سائنسدان نے یہ آلہ بنا کر یہ کام آسان کر دیا تھا۔

5. جابر بن حیان - کیمسٹری کے باپ

اگر کسی قوم یا شخص کی کامیابی کو چھپانا ہو تو اس کا نام بدل دیا جاتا ہے۔ یہی ہوا مسلم سائنسدان جابر بن حیان کے ساتھ۔ انگریزوں نے ان کا نام بدل کر "گیبر" کر دیا، جس کی وجہ سے صدیوں تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ گیبر اصل میں ایک مسلم سائنسدان تھے۔ جابر بن حیان کوئی عام سائنسدان نہیں تھے، انہیں کیمسٹری کا باپ کہا جاتا ہے۔ آج ہم جو کیمسٹری پڑھتے ہیں وہ انہی کی دین ہے۔ جابر بن حیان نے کئی کیمیکلز ایجاد کیے، یہاں تک کہ تیزاب بھی۔ کیمسٹری میں جو تجربات مختلف آلات میں کیے جاتے ہیں، ان کا طریقہ بھی جابر بن حیان نے ہی دیا تھا۔ اور یہ آلات بھی انہوں نے خود بنائے تھے، جو آج تک استعمال ہوتے ہیں۔ جابر بن حیان نے کیمسٹری کو "الکیمی" کہا تھا، لیکن بعد میں یورپی سائنسدانوں نے اس کا نام بدل کر "کیمسٹری" رکھ دیا تاکہ مسلمانوں کی ایجاد چھپائی جا سکے۔

نتیجہ

یہ وہ پانچ مسلم سائنسدان ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے وقت میں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے علم کے چراغ روشن کیے۔ آج کی سائنس کی کئی بنیادیں ان ہی کے ہاتھوں رکھی گئیں، اور ان کا ذکر کیے بغیر علم کی تاریخ ادھوری ہے۔

اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ " وہ مسلم سائنسدان جن کو تاریخ نے بھلا دیا" وہ کون ہے تو نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔


جدید تر اس سے پرانی