اسلامو فوبیا کیا ہے؟

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی مذہب کسی نسل یا قوم کے خلاف بلا جواز نفرت پروان چڑھی تو اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہوئے۔ دور حاضر کا المیہ یہ ہے کہ جو مذہب خود محبت، سلامتی، رواداری اور انسانی دوستی کا علم بردار ہے اس کے ماننے والے آج خوف میں مبتلا ہیں اور نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اسلاموفوبیا آج نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ناسور بن چکا ہے۔ اسلاموفوبیا دو لفظ اسلام اور فوبیا سے مرکب ہے یعنی اسلام سے بلا وجہ خوف اس اصطلاح کو شروع میں بعض مسلمان یہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے کہ ان کے ساتھ کس طرح دوہری پالیسی اپنائی جا رہی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے تھے کہ اسلام سے خواہ مخواہ خوف نہ کھایا جائے مگر یہ اصطلاح بیسویں صدی عیسوی میں مغربی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ایک فتنہ بن کر ابھری، خاص طور پر نائن الیون کے بعد اس میں سمندر کی طرح بھونچال آیا اور مغربی میڈیا نے بہت جلد پوری دنیا میں اس کو متعارف کرایا۔
ہندوستان میں اسلاموفوبیا کی پیچ اس وقت ہوئی گئی جب برطانوی سامراج نے " تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی پالیسی اپنائی اس کے بعد آج تک مسلمانوں کو برابری کی شہریت حاصل نہ ہوسکی اور دن بدن اس میں تیزی آتی گئی اب جب کہ ہندوستانی تخت پر زعفرانی علم بردار گدی نشیں ہو گئے مسلسل فتنہ پروروں کی طرف سے شاطرانہ چال کے ذریعے مسلمانوں کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی وسیع و عریض زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ کی جارہی ہے مسلمانوں کو جھوٹے الزام میں سالہا سال قید و بند کی سزائیں جھیلنی پڑتی ہیں، پھر چند سالوں بعد عدالت سے صرف یہ کہہ کر رہا کر دیا جاتا ہے کہ یہ بے قصور ہیں، جب تک اس کی جوانی پوری طرح اجڑ چکی ہوتی ہے مسلمانوں کی مسجدوں، خانقاہوں، اور مدارس کو زمین دوز کیا جاتا ہے، ان کی ماب لینچنگ کی جاتی ہے، طلاق کو عورتوں کے خلاف اور غیر آئینی بتا دیا جاتا ہے اور حجاب کو عورتوں کے خلاف باور کرایا جاتا ہے یہ سب کچھ اسلامو فوبیا کے بینر تلے انجام پاتا ہے، ان میں بنیادی طور پر میڈیا کی غلط پالیسی، سیاسی پارٹیوں کا ووٹ بینکنگ، اخبارات و رسائل نیز مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر نامناسب بھر کیلے اور زہریلے مواد کا نشر ہونا بڑے اسباب میں سے ہے، یوں تو میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے مگر افسوس کے گزشتہ چند سالوں سے میڈیا پروپیگینڈا اور منظم سازش کے ساتھ ایک کمیونٹی اور اس کے مسائل کو ٹارگیٹ کر رہی ہے کہیں بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں، میڈیا مسلمان مسلمان شور مچانے لگتی ہے اور بغیر کسی پختہ ثبوت کے چند مسلم نام لے کر پوری قوم کو بدنام کرتی ہے۔ اسی طرح کچھ سیاسی پارٹیاں صرف حصول ووٹ کی خاطر مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرتے ہوئے نازیبا جملے استعمال کرکے برادران وطن کے قلوب کو زہر آلود کر دیتی ہے مسلمانوں کا تعلق دہشت گردوں سے جوڑ دیتی ہے، اس کی سادہ مثال حالیہ پہلگام حادثہ کے بعد آپریشن سندور میں نمایاں کردار ادا کرنے والی ہندوستانی بیٹی صوفیہ قریشی کا تعلق دہشت گردوں سے جوڑ دیا گیا اور ایسا کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ برسراقتدار پارٹی کا ایک وزیر وجے شاہ تھا یقینا یہ قابل افسوس واقعہ ہے، اسی طرح چند سالوں پہلے تک فلموں شاہ ھا کے ذریعے مثبت خیالات کو فروغ دیا جاتا تھامگر پچھلے چند سالوں سے فلم انڈسٹری نے ایسا رخ اختیار کیا گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی پوری ذمہ داری فلم انڈسٹری کے کاندھوں پر آگئی ہو اس بڑھتے ہوئے مسئلے کا حل صرف نعرہ بازی یا غصے سے نہیں لکہ حکمت ، تدبر اور شعور سے ممکن ہے۔ اس کے سد باب کے لیے بین المذاہب مکالمے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر موثر نمائندگی کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔

جدید تر اس سے پرانی