ہندوستانی مسلمان اور آر ایس ایس

 

آرایس ایس کا قیام برطانوی راج کے دور میں ہوا تھا اس کی بنیاد ۱۹۲۵ء میں ڈاکٹر کیشو بلی رام ، ہیڈ گوار نے رکھی تھی ، آر ایس ایس کی نظریاتی بنیاد ہندو قوم پرستی مبنی ہے اور اس کا مقصد ہندوستان میں ہند و ثقافت کو فروغ دینا ہے، آزادی کے بعد آرایس ایس نے مسلمانوں کو ہندوستانی تہذیب کا حصہ ماننے کے بجائے انہیں غیر ملکی قرار دینے میں زوردیا ی ۱۹۳ ء میں تقسیم کے دوران آر ایس ایس نے مسلمانوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اس کے نتیجے میں فسادت اور کشیدگی پیدا ہوئی ، مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد آرایس ایس پر پابندی عائد کی گئی جسے بعد میں ہٹا دیا گیا۔
آرایس ایس کے نظریات کو ہندوتوا کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے وینا یک دامو در ساور کرنے متعارف کرایا ، ہندوتوا کے تحت ہندوستان کو ہندوراشٹر قرار دیا گیا ہے اور مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دیا جاتا ہے، آرایس ایس کا موقف یہ ہے کہ مسلمان ہندوستانی ثقافت کو اپنائیں اور ہندو تہذیب کا حصہ بنیں اس نظریہ نے ہندوستانی مسلمانوں کو حاشیہ پر لانے کی کوشش کی ، جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
آرایس ایس نے ۱۹۵۱ء میں بھارتیہ جن سنکھ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، جو بعد میں بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی ) کی شکل اختیار کر گئی ، بی جے پی اور آرایس ایس کا گہرا تعلق رہا ہے اور آرایس ایس کے کارکنان بی جے پی کے اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں ، آرایس ایس کے نظریات بی جے پی کے پالیسیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں، گجرات فسادات ۲۰۰۲ ء اور ایودھیا کیس میں آرایس ایس کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں ، آرایس ایس کے مسلم مخالف پالیسیوں نے مسلمانوں میں عدم تحفظ پیدا کیا ہے بابری مسجد کی شہادت ، گجرات فسادات ۲۰۰۲ ء اور دیگر واقعات نے مسلمانوں کو آرایس ایس کے نظریات کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے، آرایس ایس نے حالیہ برسوں میں مسلمانوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے لیکن ان مقدمات کو اکثر سطحی اور سیاسی مقاصد کے تحت قرار دیا جاتا ہے، آرایس ایس کی سرگرمیوں نے ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کے مخالف جذبات کو ہوا دی ہے فرقہ وارانہ فسادات، نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا، مسلمانوں کو ملازمت تعلیم اور دیگر مواقع میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آرایس ایس کی پالیسیوں کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلتوں ، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ تسلسل سے ہندوستانی معاشرہ میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے آر ایس ایس اور ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ اور متنازع رہے ہیں، جو مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کرتا ہے، تاہم آرایس ایس نے حالیہ برسوں میں اپنے موقف کو نرم کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ کوشش ابھی تک مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کرنے میں ناکام رہی ہے، مستقبل میں ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف فرقوں کے ہم آہنگی پیدا کرنا ناگزیر ہوگا۔
یہ مضمون بھی پسند آئیگا

جدید تر اس سے پرانی