 |
کیا خدا کا وجود ہے؟
|
اس فرش خاکی پر موجود سوائے منکرین مذہب اور مادہ پرستوں کے تمام لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خدا کا وجود برحق ہے، ماده پرست کہتے ہیں کہ خدا کا وجود ایک وہی چیز ہے جس کو بنی نوع انساں نے طبعی قوانین سے مرعوب ہو کر اختراع اور ایجاد کر لیا اور تمام کا ئنات کی باگ دوڑ اس کے ہاتھ میں دے کر یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ہوتا ہے اس کے حکم سے ہوا کرتا ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم وارادے کے تابع ہے حتی کہ بغیر اس کے حکم وارادے کے ایک تنکا بھی اپنی جگہ سے سرک نہیں سکتا۔ لہذا ما فوق الفطرت ہستی کے وجود کے قائل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ یہ ساری کارسازیاں مادہ اور اس کی حرکت کا نتیجہ ہے جو دونوں کے دونوں قدیم ہیں مادہ سے مراد وہ ذرات ہیں جن کو اثیر (ایتھر ) سے تعبیر کیا جاتا ہے انہی کے دوامی حرکت سے کائنات ارضی و سماوی وجود پذیر ہوئے ، لہذا ہمیں خدا - کے وجود کی اصلاً کوئی ضرورت نہیں بلکہ مادہ اور اس کے فطری قوانین ہی عالم کی ہستی اور بقا کی ضمانت ہیں غور کیجئے! کہ انھوں نے ایک نہایت علیم و حکیم ہمہ صفت موصوف خدا سے جدا کر کے ایک بے حس و بے شعور خدا پر قناعت کی رائے دی یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ہم ان مادہ پرستوں سے کہیں کہ ہندوستان کے ایک گاؤں میں ایک بچہ پیدا ہوا، پیدا ہوتے ہی اس نے نہایت فصیح و بلیغ تقریر شروع کی اور وہ علوم و معارف اس کی زبان سے ظاہر ہوئے جس کی خبر نہ ارسطو کو ہوئی تھی اور نہ ہی افلاطون کو ، نہ پیکن کا ذہن اس تک پہنچ سکا اور نہ ہی نیوٹن کا ، ان مضامین تک نہ رازی کی رسائی ہو سکی اور نہ ہی غزالی کی تو وہ مادہ پرست کہیں گے ہم ہرگز اس کی تصدیق نہیں کریں گے۔
تو کیا مادے کی وہ سحر کاریاں اس واقعے کی ندرت سے کم حیرت افزا ہے؟ کم از کم بچہ ایک نامکمل انسان تو ہے، لہذا ہمارا اس سے ان کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے ان امور کو انجام دیا ہے جن کو تعلیم یافتہ افراد کر سکتے ہیں اتنا تعجب خیز نہیں جتنا قابل تعجب یہ ہے کہ ایک جماد لا یعقل یعنی مادہ اور اس کی حرکت جس کو ذرہ بھر ادراک و شعور نہیں اس نے ایسا محکم دستور العمل تیار کردیا جس کو دیکھ کر عقلاء حیران وسرگرداں ہیں اور اس نے اتنا عجیب و غریب کا ئنات کو وجود بخشا جن کے اسرار اور حکمتوں کا پتہ لگانے سے عاجز و قاصر ہے پس ظاہر ہے کہ کوئی بھی عقلمند ہے کہ شخص اس کو ہرگز تسلیم نہیں کر سکتا۔
اب ہم جوابا ایک مثال پیش کرتے ہیں : بقول علامہ حسین آفندی ہماری اور آپ کی مثال ایسے دو شخصوں کی سی ہے جو کسی نہایت بلند و بالا اور مضبوط کوٹھی میں داخل ہوئے جس میں متعدد کمرے اور نششتگا ہیں ہوں اور وہ شاندار دروازوں اور کھڑکیوں سے مزین اور آراستہ ہو اس کے برآمدے نہایت استحکام کے ساتھ بنائے گئے ہوں اور ان میں اعلی درجے کے فرش بچھے ہوئے ہوں نہایت بیش قیمت برتن چاروں طرف قرینے سے رکھے ہوئے ہوں مختلف گھڑیوں کے ذریعے ان کے دیواروں کی زیبائش کی گئی ہو غرض یہ کہ بود و باش کے لیے جتنے سامان ضروری ہیں سبھی کچھ موجود ہوں اب ان دو شخصوں میں سے ایک یہ کہنے لگا کہ ان ساری عجیب و غریب صناعیوں پر بخوبی قادر تھا جس نے ان کو بنایا ہے، ظاہر ہے ہم نے ان کے بنانے والے کو دیکھا نہیں لیکن اس میں علم و قدرت تدبیر و حکمت وغیرہ سارے اوصاف موجود ہیں اور دوسرا شخص کہنے لگا کہ تم نے بیان کیا ہے وہ درست نہیں؛ بلکہ پہاڑی کے ایک جانب جو اس کوٹھی کے قریب تھی ( اشارہ کر کے کہا کہ ) اس پہاڑی کی چوٹی سے اس قطعہ زمین کی جانب ( جس میں یہ کوٹھی واقع ہے ) ہوا چلا کرتی ہے، یہی ہوالا کھوں برس تک مٹی اور پتھروں کو باہر منتقل کرتی رہی، اس کی وجہ سے وہ سب چیزیں مختلف شکلوں پر اس قطعہ زمین پر جمع ہوتی رہی اور بارش کا پانی ہمیشہ اس میں کچھ نہ کچھ تصرف کرتا رہا یہاں تک کہ کروڑوں برس کا زمانہ گذرنے کے بعد اب اس کوٹھی کی با قاعدہ صورت بن گئی۔ ظاہر ہے کہ دوسرا شخص مہمل اور غیر منطقی بات کر رہا ہے بس اسی طرح یہ عالم اور اس کی ساری رنگینی ہے اس کا ایک حقیقی خالق ہے۔