مولانا وستانوی ایک ہمہ گیر شخصیت

 

ہم اپنے ارد گرد بہت ساری چیزیں ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں بسا اوقات وہ ویسی ہی ہوتی ہے اور بہت کی مرتبہ نظر کا فریب اور بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں کوئی کہ اس کو حقیقت سمجھتا ہے تو کوئی خواب ، مگر ایک چیز جس پر ساری کائنات اور اس کا ہر ذی شعور فرد متفق ہے، وہ سب سے اٹل حقیقت ( کل نفس ذائقة الموت) ہے یعنی جو روح اس کرہ ارض میں آئی ہے اسے لوٹنا ہے ہاں اس کے واپسی کا کوئی متعین لحہ، کوئی مقررہ ساعت اور کوئی باندھا ہوا مقید دن ہمیں معلوم نہیں وہ کسی بھی آن میں معیت کو توڑ دیتی ہے، ساتھ چھوڑ دیتی ہے، اور ہزاروں انسانی انفاس سے دغا کر بیٹھتی ہے۔ یہ عالم اولیاء اللہ، داعی اسلام اور علوم نبویہ سے محلی و مصفی اشخاص سے خالی ہوتا جارہا ہے اور ایسا خلا پیدا ہو رہا ہے کہ کوئی اسے پر کرنے والا نہیں، انہی اصحاب اولو العزم میں سے ایک خادم القران رئیس الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب ہیں جن کو اب رحمۃ اللہ علیہ کہنا پڑ رہا ہے ، سقى الله ثراه وجعل الجنة مثواه
حضرت مولانا کی ولادت یکم جون ۱۹۵۰ء کو ریاست گجرات میں واقع سورت کے مشہور و معروف گاؤں کو ساڑی میں ہوئی ، والد کا نام محمد اسماعیل تھا جن کی خواہش تھی کہ آپ عصری تعلیم حاصل کریں ، حالانکہ ان کی دینداری کا عالم یہ تھا کہ کبھی تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی ، تربیتی امور میں نہایت سخت برے افعال سے بے حد دوری اور لغو سے پر ہیز کرنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ قوت الاسلام سے حاصل کی جو آبائی گاؤں ہی میں تھا، مدرسہ شمس العلوم بڑودہ میں بھی کچھ ابتدائی علوم حاصل کیے ، پھر ۱۹۶۴ء میں عالم بننے کے لیے مدرسہ فلاح دارین تر کیسر میں داخلہ لیا، اسا تذہ کی تو جہات نے آپ کو بالکل ہی بدل ڈالا فلاح دارین سے فراغت کے بعد ۱۹۷۲ء میں مظاہر العلوم گئے اور وہاں مسلم شریف اور بخاری شریف مولانا یونس جونپوری رحمتہ اللہ علیہ سے پڑھی ، مولا نا عاقل صاحب رحمت اللہ علیہ سے سنن ابی داؤد پڑھی حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ سے خاص عقیدت تھی ، مولانا مرحوم حضرت شیخ کو خط لکھا کرتے تھے۔
حضرت مولانا صرف عالم دین نہیں، بلکہ ہمہ جہت شخصیت اور مثل انجمن تھے تعلیمی خدمات، قیادت و سیادت تعمیر و ترقی اور درس و تدریس کے علاوہ بہت سارے دیگر کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ حضرت مولانا امت کی صلاح وفلاح کے لیے ہمیشہ متفکر رہتے، انہیں گونا گوں صلاحیتوں کی وجہ سے ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے رکن شوری منتخب ہوئے، چونکہ اکابرین دیوبند کے معتمد تھے خاص کر مولانا مرغوب الرحمن کے دور اہتمام میں ان کے دست راست تھے، اسی لیے ان کی وفات کے بعد اہتمام بھی سنبھالا اہتمام کے ساتھ جامعہ ہتھوڑا باندہ اور مظاہر العلوم ( جس کے وہ کسی وقت طالب علم ہوا کرتے تھے ) رکن شوری بھی رہے اصلاحی تعلق حضرت قاری صدیق احمد با ندوی رحمۃ اللہ سے تھا حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری رحمتہ اللہ علیہ نے بھی بیعت وخلافت کی اجازت دی تھی جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا جو کبھی چھ طالب علم اور ایک استاد سے شروع ہوا تھا آج ترقی کی بلندیوں کو پہنچ چکا ہے ۱۵ سے ۲۰ ہزار طلباء زیر تعلیم ہیں نیز ۳۵۰۰ سے زیادہ مکاتب مدرسہ کے تحت چلتے ہیں ، ایک سو سے زیادہ مدارس، ایم بی بی ایس کالج اور آئی ٹی آئی کالجز ہیں مولانا بار ہا فرماتے تھے کہ قوموں کی ترقی کا راز تعلیم میں ہے تعلیم انسان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے تعلیم کے بغیر انسان کالعدم ہے۔

جدید تر اس سے پرانی