جبکہ سب لوگ پروفیسر علی خان کو ضمانت ملنے کا جشن منا رہے ہیں، سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا انہیں واقعی انصاف ملا ہے ؟ سپریم کورٹ کا مکمل فیصلہ پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
سپریم کورٹ نے پروفیسر علی خان محمود آباد کو عارضی ضمانت دی ہے، لیکن سپریم کورٹ نے انصاف نہیں کیا ہے۔ بلکہ اس طرح کے معاملات میں ایک سنگین مثال قائم کردی ہے ۔
جس مقدمے میں علی خان کو باعزت بری کیا جانا چاہیے تھا اُس میں ایسی مشروط ضمانت دی گئی ہے کہ پروفیسر علی خان کے مضمون کو سپریم کورٹ نے " سستی شہرت کا حربہ " قرار دیا ہے،
سپریم کورٹ کے جج جسٹس سوریہ کانت نے ایک طرف انہیں مشروط ضمانت دی مگر دوسری طرف ان کے مضمون کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی بنانے کا حکم جاری کیا ہے، ایک تجزیاتی مضمون کی جانچ پولیس ڈیپارٹمنٹ کرےگا؟ انہیں پاسپورٹ جمع کرانے اور ملک نہیں چھوڑنے کا پابند بنایا گیا ہے، اور جب جب ایس آئی ٹی تفتیش کے لیے بلائے پروفیسر علی خان کو جانچ میں مکمل تعاون کرنا ہوگا،
مزید یہ کہ پروفیسر علی خان انڈیا پاکستان جنگ پر کسی طرح کا کوئی تبصرہ نہیں کریں گے، جیل سے نکل کر پولیس اور ایس آئی ٹی کے چکّر انہیں کاٹنے پڑیں گے،
یہ حکم خود پروفیسر محمود آباد کی آواز کو دبا رہا ہے، ان کی آزادی کو محدود کر رہا ہے، اور فرد کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، اپنی عقل و دانش کی ترجمانی کی آزادی کے خلاف ایک خوفناک مثال قائم کر رہا ہے۔
اور یہ حکم دینے والا جج جسٹس سوریہ کانت آپ جانتے ہیں کون ہے؟
وہ اگلے چیف جسٹس ہونے والے ہیں جو قریب ڈیڑھ سال ہم سب کے، اس ملک کے قانونی نظام کے چیف جسٹس ہونے جارہے ہیں۔
یہ مقدمہ سب سے بوگس اور بکواس تھا جس میں سیاسیات اور تاریخ کے ایک اعلیٰ دماغ کو اس کی تجزیاتی اور دانشورانہ رائے کی وجہ سے پھنسا دیا گیا اس مقدمے کو سرے سے خارج کرنا ہی معقولیت اور آئینی انصاف کا تقاضا تھا، لیکن اس میں سپریم کورٹ نے پروفیسر کی علمی Practice کو سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کہہ کر آئندہ کے لیے ملک میں اظہار رائے کی آزادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
یہ راحت نہیں بلکہ، یہ پروفیسر علی خان جیسے ہر فرد کے لیے میرے اور آپ کے لیے عدالت کے لباس میں چھپی ایک تنبیہ ہے، ایک وارننگ ہے !
سمیع اللہ خان