ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار | 15 اگست اردو تقریر

ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار

 الحمدللہ رب العالمین والصلوات والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ

چمن اپنا ہے یہ اپنے چمن کے باغباں ہم ہیں

لہو دیکر اسے سینچا اسکے پاسباں ہم ہیں

معزز سامعین:۔ موضوع تقریر ہے ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار

حضرات: مسلمانوں کی جدو جہد صبر آزماں لمحات کی کہانی ہے جسکو پھیلائیں تو آزاد ہندوستان، سمیٹے تو کتب خانے، پڑھیں تو نوشتے، لکھیں تو صحیفے، بکھڑیں تو دارورسن کے افسانے، اور دل میں اتاریں تو آزادی کے ترانے بنتے ہیں اور ہم فخر سے کہنے لگتے ہیں۔

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبل ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا

وطن کے جگر پاروں: اس ملک کے لئے جن مجاہدوں نے گولیاں کھائیں جیل کی صعوبتیں برداشت کیے مسکراتے ہوئے پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالا ان مجاہدین آزادی میں ہندو مسلم سب شریک تھے۔

اگر ہندو کی کوشش کا وطن کے رخ پہ غازہ ہے

مسلماں کے لہو سے بھی وطن کا باغ تازہ ہے

برادران وطن: ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا قربانی کا عرصہ کم وبیش تین صدیوں کے برابر ہے١٧٠٠ء سے ہی نواب سراج الدولہ نے انگریزوں کے خلاف لڑنا شروع کردیا تھا ١٧٣١ء شاہ ولی االلہ محدث دہلوی نے انگریزوں کے قائم کردہ نظام حیات کی دھجیاں بکھیڑنے کی کوشش کی ١٧٩٩ءمیں آزادی کے متوالے ٹیپو سلطان شہید نے شری رنگا پٹنم کے میدان میں جام شہادت نوش کیا انکی نعش کو دیکھکر فاتح انگریز نے یہ اعلان کیا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے ١٨٣١ء ایسٹ انڈیا کمپنی کی قیام کے بعد یہ اعلان ہو گیا تھا کہ خلق خدا کی ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا اس اعلان کے بعد امام حریت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ آج ہمارا ملک غلام ہو گیا ہے اور حصول آزادی کے لیۓ جدوجہد کرنا ہمارا فریضہ ہے اس کے بعد بذریعہ اسلحہ اس ملک کو آزاد کرانے کے لئے مسلمان آگے بڑھے جنکی قیادت حضرت سید احمد شہید نے کی ١٨٥٧ء کے جنگ آزادی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ تمام مسلمانوں کو تخت دار پر چڑھا دیا جائے چنانچہ پندرہ دنوں تک پورے ملک میں قتل وغارت گری کا سلسلہ جاری رہا دو لاکھ مسلمان شہید ہوئے جن میں ساڑھے اکیاون ہزار علماء کرام تھے چاندنی چوک لال قلعہ اور جامع مسجد کے پورے علاقہ کی گلی کوچوں اور چوک چوراھوں پر علماء کی سولی دیکر عوام کی عبرت کے لئے کئی دنوں تک لٹکا کے رکھا گیا، ١٧٦١ء میں انبالہ اور مالدہ کے اندر بڑے سنگین مقدمے چلائے جن میں نامزدوتمام مسلمانوں کو پھانسی دی گئی یا ساری عمر کے لئے کالا پانی بھیج دیا گیا، برطانوی سامراج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے حضرت شیخ الہند اندرون ملک انگریزوں کے مخالفت بیرون ملک سے حملے کا پروگرام بنایا اسی مقصد کے لئے انہوں نے چالیس برس خفیہ تیاری کے بعد ١٩١٥ء میں ریشمی رومال کی تحریک چلائی جن میں ملک کے نامور سیاسی لیڈر شریک تھے، ١٩٢١ء خلافتِ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا حسین احمد مدنی نےکہا تھا "برطانیہ کی اعانت وملازمت حرام ہے" اس جسارت حق گوئی کی پاداش میں انکو اور انکے رفقاء کو دو سال کی قید بامشقت کی سزا ہوئی, مولانا محمد علی جوہر نے گول میز کانفرنس میں اہل برٹش سے کہا تھا۔

یا تو ہندوستان کی آزاد ہوگی سرزمیں

دینی ہوگی یا مجھے انگلینڈ میں دوگز زمیں

١٩٢٦ء میں کلکتہ کے اندر علامہ سید سلمان ندوی کی قیادت میں مکمل آزادی کی تجویز منظور ہوئی ١٩٢٩ء ڈانڈی مارچ کی تحریک میں جہاں گاندھی جی گرفتار ہوئے تھے وہیں مولانا ابوالکلام آزاد اور انکے رفقاء گرفتار کۓ گئے، ١٩٤٢ء میی انگریزوں ہندوستان چھوڑدو کا نعرہ بلند کیا، مختصر یہ کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمارے اکابرین نے گولیاں کھائیں، جیل خانے آباد کئے، دارورسن کے مرحلے سے گزرے، جام شہادت نوش کیا، بالآخر غلامی کی مضبوط قلعے مسمار ہو گئے، محکومیت کی زنجیریں ٹوٹ گئیں، اور آزادی کی جو جدوجہد ١٧٠٠ءمیں شروع ہوئی تھی، وہ ١٥اگست ١٩٤٧ء آزادی کی عنوان جلی لیکر مطلعِ ہندوستان پر جلوہ گر ہوئی۔ مگر آہ

جب پڑا وقت گلستاں کو تو لہو ہم نے دیا

جب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں

آئیے: عہد کریں کہ آزادی کی حفاظت اور ملک کی سالمیت کے لئے ہم کندھا سے کندھا ملاکر چلیں گے، ہندوستان کی ترقی اورخوشحالی کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے اور قومی یکجہتی وجذباتی ہم آہنگی کو فروغ دینگے۔

مادر وطن سے مخاطب ہے

وطن آواز دیتا ہے وطن کی شان بن جاؤ

اٹھو اٹھ کر نئ تاریخ کا عنوان بن جاؤ

وما علینا الاالبلاغ

اگر آپ " ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کے کارنامے" کے متعلق جاننا چاہتے ہیں تو نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

جدید تر اس سے پرانی