دنیا کا سب سے بڑا کلاک ٹاور کہاں ہے؟

آخرکار مکہ کی اس بہت بڑی گھڑی کو بنانے کے لیے انجینئرز کو اپنا مذہب کیوں بدلنا پڑا؟ کیسے انجینئرز نے دنیا کے سب سے بڑے کلاک ٹاور کی تعمیر کی۔ ایک ایسا کلاک ٹاور جس کی عظمت اور شان کے سامنے دنیا کے ہر کلاک ٹاور چھوٹا لگنے لگا۔

کلاک ٹاور کے چند اہم خصوصیات:

اس پر لگی گھڑی کو 30 کلومیٹر دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اسے بنانے میں 10 کروڑ سے بھی زیادہ چھوٹے چھوٹے شیشے کے ٹکڑوں کا استعمال کیا گیا۔ مکہ رائل کلاک ٹاور، جسے ابراج البیت ٹاورز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انجینئرنگ، اسلامی فنون اور جدید ٹیکنالوجی کا ایک منفرد امتیاز سنگم ہے۔ 601 میٹر اونچا یہ ٹاور دنیا کی چوتھی سب سے بلند عمارت ہے۔ مکہ رائل کلاک ٹاور میں 120 منزلیں ہیں۔ جس میں کئی ہوٹل، رہائشی اپارٹمنٹس، مال اور اسلامی میوزیم شامل ہیں۔ اس پر لگی گھڑی 43 میٹر چوڑی ہے۔ جس کے اوپر چاند کی اونچائی 23 میٹر ہے، جس میں 20 لاکھ سے زیادہ ایل ای ڈی لائٹس استعمال کی گئی ہیں۔ مکہ کلاک ٹاور کنگ عبدالعزیز اینڈومنٹ پروجیکٹ کے تحت بنایا گیا تھا۔ اس کی تعمیر کسی معجزے سے کم نہیں تھی۔ اسے بنانے میں سعودی بلا دین گروپ، دارالحنداسہ اور جرمن کمپنی ایس ایل راس جیسی بین الاقوامی کمپنیاں شامل تھیں۔

اور اسے بنانے میں 1 ارب ڈالر یعنی 1200 کروڑ روپے خرچ ہوئے جو آج بھی اسے دنیا کا سب سے مہنگا کلاک ٹاور بناتے ہیں۔ مکہ کلاک ٹاور کو اسلامی دنیا کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کا ڈیزائن اور تعمیر کسی معجزے سے کم نہیں تھی۔ آپ نے ویڈیو یا فلموں میں یہ گھڑی ضرور دیکھی ہوگی۔ لیکن آپ کو شاید سمجھ نہیں آیا ہوگا کہ یہ گھڑی واقعی کتنی بڑی ہے۔ جب آپ اسے سامنے سے دیکھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ آپ واقعی کوئی عجوبہ دیکھ رہے ہیں۔ تب آپ کو سمجھ آئے گا کہ لوگ اسے دور دور سے کیوں دیکھنے آتے ہیں۔

آپ کو شاید حیرت ہو کہ گھڑی کے کناروں پر بیس لاکھ سے زیادہ چھوٹی چھوٹی ایل ای ڈی لائٹس لگی ہوئی ہیں، جن کی مدد سے رات کو بھی کئی کلومیٹر دور سے وقت دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ گھڑی سو فیصد سولر انرجی سے چلتی ہے۔ گھڑی کی سوئیاں بنانے کے لیے کاربن فائبر استعمال کیا گیا ہے تاکہ یہ ہلکی اور مضبوط رہے۔ اس کی منٹ بتانے والی سوئی 23 میٹر لمبی ہے۔ اس گھڑی میں ملٹی گریڈ جی پی ایس ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے، اسی وجہ سے یہ دنیا کی سب سے زیادہ درست وقت بتانے والی گھڑی ہے۔

مکہ کلاک ٹاور اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اسے آسمانی بجلی یا طوفان کا کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اس کے ڈائل بنانے میں 30 کلو سے زیادہ سونا استعمال ہوا ہے۔ یہ مسجد الحرام سے صرف 300 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اتنی بھیڑ والے علاقے میں اتنی بلند عمارت بنانا آسان کام نہیں تھا۔ مکہ کی 50 ڈگری سیلسیس گرمی میں 600 میٹر کی بلندی پر کام کرنا خود ایک بہت بڑی مشکل تھی۔ دنیا کے کئی انجینیئرز نے دعویٰ کیا تھا کہ یہاں کلاک ٹاور بنانا ناممکن ہے۔ لیکن اس کے باوجود سعودی عرب نے خاص ہیلی کاپٹر اور مشینیں بنوائیں گئیں اور ان کی مدد سے دنیا کے سب سے بڑے کلاک ٹاور کو بنانے کا کام شروع ہوا۔ مکہ کی دھول بھری تیز ہوائیں تعمیراتی ٹیم کے لیے بہت بڑی چیلنج تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گھڑی کا وزن 36,000 ٹن سے بھی زیادہ تھا۔ اتنی بڑی اور بھاری گھڑی کو اتنی اونچائی پر بنانا انجینئروں کے لیے ایک مشکل امتحان تھا۔ اس گھڑی کو بنانے والے کئی انجینئروں کو اپنا مذہب بھی بدلنا پڑا کیونکہ جس جگہ پر یہ ٹاور بنایا جا رہا تھا وہاں غیر مسلموں کا جانا منع تھا۔

مکہ آج بھی ان شہروں میں شامل ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں غیر مسلموں کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں بہت سے انجینئرز جو دوسرے مذہب سے تعلق رکھتے تھے، انہیں اسلام قبول کرنا پڑا تاکہ وہ دنیا کے سب سے بڑے کلاک ٹاور کی تعمیر کر سکیں۔ مکہ کے اس تاریخی کلاک ٹاور کی تعمیر میں سات سال سے زیادہ وقت لگا۔ لیکن جب یہ مکمل ہوا تو اس کی خوبصورتی اور تعمیراتی انداز دیکھ کر دنیا حیران رہ گئی۔ جدید ٹیکنالوجی اور اسلامی فنون پر مبنی یہ عمارت اکیسویں صدی کا تاج بن چکی ہے۔ ویسے آپ کے مکہ کے کلاک ٹاور کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟ نیچے کمنٹ میں ضرور بتائیں۔

اگر آپ کو بحیثیت مسلمان فخر محسوس ہوا ہو تو اس مضمون کو ضرور شئیر کریں۔

یہ معلومات اہم بات ڈاٹ کام (Ahambaat.Com) کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے۔ 

سائنس کے بنیاد رکھنے والے 5 مسلم سائنسدان | Muslim scientists کے متعلق جاننا چاہتے ہیں تو نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔




جدید تر اس سے پرانی