سلطان عبدالرحمن الناصر: اندلس کے زوال میں امید کی روشنی

محمد شاہد گڈاوی 

 سن ٢٧٢ہجری کا دور ہے، سلطان منذر ابن محمد کی وفات کے بعد عبداللہ ابن محمد تخت نشیں ہوتا ہے، جو امور سیادت سے ناواقف ہونے کے ساتھ ،آرام طلبی، عیش و مستی ،چاپلوسی اور خوشامد پسندی کا دلدادہ ہوتا ہے ،کچھ اپنی نااہلی و نالائقی اور کچھ چرب زباں مصاحبوں اور ندیموں کی وجہ سے انتظام و انصرام سلطنت سے بالکل غافل ہو جاتا ہے ،اور وہ شجرۂ خلافت جس کو طارق ابن زیاد اور موسی بن نصیر نے اپنی فراست ایمانی و قوت اسلامی، اور اپنے جانبازوں کی شجاعت و بسالت کے ذریعے لگایا تھا،نیز عبدالرحمن الداخل نے جس کو اپنے خون جگر سے سینچا و پروان چڑھایا تھا،اور بڑی محنت و جاں فشانی کے بعد اندلس کو گہوارۂ امن و سلامت بنایا تھا ،اور نہایت عرق ریزی وتگ و دو کے بعد اس درجہ تک پہنچایا تھا کہ کوئی دشمن اس کی جانب آنکھ اٹھانے کی بھی جرات نہیں کرسکتا تھا؛ مگر افسوس کہ آج اسی کے جانشین کی نگاہ میں اس کی کوئی قدر اور وقعت نہیں رہتی ہے، اور رقص و سرور و عیش و آرام کا پتلا بن کر اس سلطنت کی بنیادوں کو متزلزل کرنے لگ جاتا ہے ،اس کی سخت بد انتظامی اور بے انتہا لاپرواہی کی وجہ سے ہر طرف بدنظمی پھیل جاتی ہے،اور سوائے قرطبہ کے سب کے سب خود مختار ہو جاتے ہیں ۔اندرونی چپقلش ،باہمی خلفشار اور خانہ جنگی کا بازار گرم ہو جاتا ہے ،جس کی وجہ سے قزاق اور راہزن تمام ملک میں بے خوف و خطررعایا کی جان و مال کو تباہ کرنے میں لگ جاتے ہیں، ملک اندلس کی قوت مدافعت اتنی کمزور پڑجاتی ہے کہ اس کی جانب مغرب سے بنی فاطمہ اس پر حملہ کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور جانب شمال سے عیسائی اس پر قبضے کی تیاری کرتے ہیں؛ بلکہ کئی شہروں پر قبضہ بھی کرلیتے ہیں ؛حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ سوائے تخت و تاج کے کوئی سرمایہ باقی نہیں رہتا ہے، ہر طرف شدید مایوسی اور بے چینی پھیل جاتی ہے، اور قریب تھا کہ طارق ابن زیاد اور موسی بن نصیر کے ہاتھ کا روشن کیا ہوا چراغ- جو اب ٹمٹما رہا تھا- گل ہو جائے، اور سنبھلنے کی تمام امیدیں منقطع ہو گئی تھیں؛ لیکن قضا و قدر نے چراغ بے روغن کو قدرت کے تیل سے سیراب کیا کہ اچانک خبر مشہور ہوئی کہ سلطنت اندلس کو تباہ برباد کرنے والا آج خود موت کی نیند سو گیا ہے۔

اس کے انتقال ہوتے ہی ایک ٢٠ سالہ نوجوان، جواں سال و جمع عمر، ماہر سیادت و قیادت سریر آرائے سلطنت ہوتا ہے، اور تخت پر بیٹھنے کی دیر تھی کہ ایک فرمان ممالک محروسہ کے نام سختی کے ساتھ جاری کرتا ہے، باغیوں اور مفسدوں کو سخت سزا دیتا ہے، سلطنت کو بدباطن خبیث النفس چرب زباں مصاحبوں اور ندیموں سے خالی کر کے صاحب الرائے و صائب الرائے مشیروں، علم و فن میں کمال رکھنے والے تجربہ کار امیروں، حکماء و فقہاء، علماء و صلحاء اور خطباء و شعراء کو اپنے مصاحب و ہم نشیں مقرر کرتا ہے، اور نہایت ہی دانشمندی و ہوش مندی سے انتظام و انصرام کرتا ہے، عوام و رعایا کو محفوظ کرتا ہے حتی کہ ابھی اس کے تخت نشیں ہوئے ٢٠ سال بھی نہیں گزرتے ہیں، کہ ملک کے چاروں طرف سے امن و اماں کی ہوا چلنے لگتی ہے، سختی سیادت کی وجہ سے بدمعاشوں اور شریروں کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔

اس نوجوان کی دور اندیشی ،انتظام و انصرام کی صلاحیت، جہاں گیری و جہاں بانی کی استعداد، اس کے فتوحات اور بے نظیر کامیابیوں سے مرعوب ہو کر شہنشاہ قسطنطنیہ اور بادشاہان فرانس و اٹلی و جرمن نے نہایت تزک و احتشام کے ساتھ سفارتیں بھیجنی شروع کردیتے ہیں، اور اس عدیم المثال نوجوان سے اتحاد اور دوستی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یورپ و افریقہ میں بھی اس نوجوان کی فراست وذہانت اور سپہ سالاری ضرب المثل بن جاتی ہے۔


اس نوجوان کو دنیا سلطان عبدالرحمن الناصر کے نام سے جانتی ہے۔

سلطان الناصر نے ممالک محروسہ کا جو انتظام کیا وہ بھی مثال و بے نظیر تھا، سرحدوں کو قلعوں کے ذریعے اتنامحفوظ و مضبوط بنا دیا کہ جو عیسائی اس سے پہلے بار بار حملہ کر کے قبضہ کر لیا کرتے تھے، اب اس کی طرف نگاہ اٹھانے کی بھی ہمت نہیں جٹا پاتے، اس کے علاوہ اس نے اپنی رعایا کو ہر طرح کا آرام و سکون عطا کیا، اس کی فریاد رسی میں کوئی کسر نہیں اٹھائی، یہی وجہ ہے کہ بہت جلد آپ عوام و خاص میں محبوب و گرویدہ ہو گئے۔

آپ کے زمانہ حکومت میں اندلس کو غیر معمولی ترقی حاصل ہوئی، اہل علم اور اہل فن کی قدردانی کی وجہ سے بے شمار علماء و حکماء آپ کے گرد جمع ہو گئے، عمارت و تعمیر کے شوقین ہونے کی وجہ سے پورا ملک خوبصورت عمارتوں دلکش باغوں اور دیدہ زیب سڑکوں سے آراستہ و پیراستہ ہو گیا، قصر الزہرا، جس کو دیکھنے والا پوری زندگی اس کی عظمت و جلالت کا گن گانے لگتا تھا اسی بادشاہ کے شوق تعمیر کا نتیجہ تھا، اس کی جفا کشی اور خلافت اندلس کے تئیں اس کے کارنامے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بعد وفات اس کے کاغذات میں ایک پرچہ ملا جس پر درج تھا کہ 

”٥٠ سالہ دور حکومت میں صرف ١٤ روز سکون و راحت اور 

خوشی و مسرت کے ملے ہیں“

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر بلند خیال اور جفاکش بادشاہ تھا، جس نے اپنی تمام عمر اور اپنا تمام وقت اپنی سلطنت کے انصرام اور اپنی عزیز رعایا کی خدمت میں صرف کیا، اور اپنے عیش و آرام، بلکہ اپنی صحت کی بھی پرواہ نہیں کی۔ بالآخر ٥٠ سال بحسن و خوبی بادشاہت کرنے، اور اندلس کو ترقی معراج پر چڑھانے کے بعد، ٢ رمضان المبارک ٣٥٠ ہجری کو قصر الزہرا میں اپنی جان جان آفریں کے حوالے کر دی، اور اپنے جانشینوں کے لیے مضبوط و مستحکم اور ناقابل تسخیر سلطنت چھوڑکر راہی ملک بقاء ہوئے۔

یہ معلومات اہم بات ڈاٹ کام کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے ۔

جدید تر اس سے پرانی